EN हिंदी
حجابات اٹھ رہے ہیں درمیاں سے | شیح شیری
hijabaat uTh rahe hain darmiyan se

غزل

حجابات اٹھ رہے ہیں درمیاں سے

ساجد صدیقی لکھنوی

;

حجابات اٹھ رہے ہیں درمیاں سے
زمیں ٹکرا نہ جائے آسماں سے

نکالا کس خطا پر گلستاں سے
ہمیں یہ پوچھنا ہے باغباں سے

وہیں جانا ہے آئے ہیں جہاں سے
ہیں واقف منزل عمر رواں سے

بہار آنے کی مانگی تھیں دعائیں
بہار آئی مگر بد تر خزاں سے

جو ہیں نا آشنائے نظم گلشن
انہیں کو فائدے ہیں گلستاں سے

ابھی مردہ نہیں ذوق اسیری
قفس کا سامنا ہے آشیاں سے

جہاں کانٹوں میں الجھے اپنا دامن
بیاباں اچھا ایسے گلستاں سے

غموں ہی سے خوشی ہوتی ہے پیدا ہے
بہاریں بنتی ہیں دور خزاں سے

سہارا لوں اگر دیوانگی کا
گزر جاؤں حد کون و مکاں سے

نمایاں ہے وہی رجعت‌ پسندی
نظام زندگی بدلا کہاں سے

لپٹ جاؤں گا میں دامن سے ان کے
سبق سیکھا ہے خاک آستاں سے

بھٹکتا پھر رہا ہوں اس طرح میں
کہ جیسے چھٹ گیا ہوں کارواں سے

چمن میں پھر بنائیں گے نشیمن
ہمیں ضد ہو گئی ہے آسماں سے

وطن دشمن انہیں کیوں کر نہ سمجھیں
جنہیں ہے دشمنی اردو زباں سے

وہی ہے باعث تکلیف ساجدؔ
ملیں تھیں راحتیں جس گلستاں سے