EN हिंदी
حجاب راز فیض مرشد کامل سے اٹھتا ہے | شیح شیری
hijab-e-raaz faiz-e-murshid-e-kaamil se uThta hai

غزل

حجاب راز فیض مرشد کامل سے اٹھتا ہے

شیر سنگھ ناز دہلوی

;

حجاب راز فیض مرشد کامل سے اٹھتا ہے
نظر حق آشنا ہوتی ہے پردہ دل سے اٹھتا ہے

جلا جاتا ہوں بار سوز غم مشکل سے اٹھتا ہے
وہ اشکوں سے نہیں بجھتا جو شعلہ دل سے اٹھتا ہے

کہاں خنجر بھی دست ناوک قاتل سے اٹھتا ہے
نزاکت سے حنا کا بار بھی مشکل سے اٹھتا ہے

یہ کس نے ڈال دی بحر تلاطم خیز میں کشتی
یہ شور ہرچہ باد اباد کیوں ساحل سے اٹھتا ہے

کشیدہ جس سے تم ہوتے ہو کوئی رخ نہیں کرتا
گراتے ہو نظر سے تم جسے مشکل سے اٹھتا ہے

یہ آنسو کسمپرسی کس کے ماتم میں بہاتی ہے
جنازہ آج کس کا کوچۂ قاتل سے اٹھتا ہے

مگر تاثیر پیدا ہو گئی مجنوں کے نالوں میں
کہ پردہ آج دست لیلی محمل سے اٹھتا ہے

رخ بے پردہ ان کا یاد آتا ہے شب ہجراں
حجاب ابر جب روئے مہ کامل سے اٹھتا ہے

لگا دی آتش خاموش کیا سوز محبت نے
الٰہی خیر دود آہ سوزاں دل سے اٹھتا ہے

کیا شرمندہ اتنا سخت جانی نے نزاکت سے
خجالت سے سر ان کے سامنے مشکل سے اٹھتا ہے

کلیجہ تھام لیں دیدار جاناں دیکھنے والے
بس اب پردہ رخ رشک مہ کامل سے اٹھتا ہے

چلے احباب آغوش لحد میں چھوڑ کر مجھ کو
کہ ہمدردی کا جذبہ پہلی ہی منزل سے اٹھتا ہے