ہچکیاں لیتا ہوا دنیا سے دیوانہ چلا
جاں کنی کے وقت بھی تیرا ہی افسانہ چلا
میں جنون عشق میں جانے کہاں تک آ گیا
شہر کے ہر موڑ سے پتھر جداگانہ چلا
خون کی گردش میں شامل ہو گئی دل کی امنگ
کوئے قاتل کی طرف بے اختیارانہ چلا
موسم گل زرد ہے خون تمنا کے بغیر
نقد جاں لے کر چمن میں سرفروشانہ چلا
موت کے سائے میں طارقؔ آرزو کی دھوپ تھی
کاروبار زندگی بے اعتبارانہ چلا
غزل
ہچکیاں لیتا ہوا دنیا سے دیوانہ چلا
شمیم طارق