حضرت عشق ادھر کیجے کرم یا معبود
بال گوپال ہیں یاں آپ کے ہم یا معبود
بندہ خانہ میں اجی لائیے تشریف شریف
آ کے رکھ دیجے ان آنکھوں پہ قدم یا معبود
نفی اثبات کی شاغل جو قلندر ہیں سو وہ
اپنی گردن کو نہیں کرتے ہیں خم یا معبود
اپنے داتا کی حقیقت کے ہیں جلوہ تم میں
لمعۂ نور تجلی کی قسم یا معبود
جلد پھٹکارئے سبزے کے نشہ کو کوڑا
کھینچیے اور کوئی سلفے کا دم یا معبود
آپ ہی آپ ہیں وہ آپ نے سچ فرمایا
یوں بھی کچھ دھوکے سے تھے نام کو ہم یا معبود
ورنہ یہ عاریتاً ہے جو وجود اپنا سو
گزراں وہ تو ہے جوں موجۂ یم یا معبود
واقعی بولنے سے اپنے لڑا بیٹھے جو آنکھ
کیوں خودی سے نہ کرے پھیر وہ رم یا معبود
آنکھ کو کہتے عرب عین ہیں سو عین اگر
دم پر آ جائے تو ہو عین عدم یا معبود
رات تریاک نشہ نے تو الٹ ڈالا واہ
کوئی گھولا تو وہ تھا کاسۂ سم یا معبود
سدرہ تک آن تو پہونچا ہوں دلی قصد ہے یہ
کہ بڑھوں اور بھی دو چار قدم یا معبود
چار زانو ہو اب انشاؔ بھی زمیں سے اونچا
یک و جب رہنے لگا سادہ کی دم یا معبود
غزل
حضرت عشق ادھر کیجے کرم یا معبود
انشاءؔ اللہ خاں