EN हिंदी
حضرت دل یہ عشق ہے درد سے کسمسائے کیوں | شیح شیری
hazrat-e-dil ye ishq hai dard se kasmasae kyun

غزل

حضرت دل یہ عشق ہے درد سے کسمسائے کیوں

بیخود دہلوی

;

حضرت دل یہ عشق ہے درد سے کسمسائے کیوں
موت ابھی سے آئے کیوں جان ابھی سے جائے کیوں

عشق کا رتبہ ہے بڑا عشق خدا سے جا ملا
آپ نے کیا سمجھ لیا آپ یہ مسکرائے کیوں

میرا غلط گلہ سہی ظلم و جفا روا سہی
ناز ستم بجا سہی آنکھ کوئی چرائے کیوں

تجھ سے زیادہ نازنیں اس میں ہزاروں ہیں حسیں
دل ہے یہ آئینہ نہیں سامنے تیرے آئے کیوں

عاشق نامراد کو اس کی رضا پہ چھوڑ دو
اس کی اگر خوشی نہ ہو غم سے نجات پائے کیوں

حوصلۂ ستم بڑھے تیغ و سناں کا دم بڑھے
ایک ہی تیر ناز میں کیجیئے ہائے ہائے کیوں

غالبؔ خوش بیاں کہاں بیخودؔ خستہ جاں کہاں
طبع کا امتحاں کہاں شاد مجھے ستائے کیوں