حزیں تم اپنی کبھی وضع بھی سنوارو گے
قمیص خود ہی گرے گی تو پھر اتاروگے
خلا نوردو بہت ذرے انتظار میں ہیں
جہاز کون سا پاتال میں اتاروگے
اتر کے نیچے کبھی میرے ساتھ بھی تو چلو
بلند کھڑکیوں سے کب تلک پکارو گے
وہ وقت آئے گا اے میرے اپنے سنگ زنو
مہکتے پھولوں کے گجرے بھی مجھ پہ وارو گے
نکل رہی ہے اگر تیرگی تو کیا تم لوگ
سحر کے وقت چراغوں کی لو ابھاروگے
تمہیں قلم کو لہو میں ڈبونا آتا ہے
حزیںؔ ضرور تمہی شعر کو نکھاروگے
غزل
حزیں تم اپنی کبھی وضع بھی سنوارو گے
حزیں لدھیانوی