حزیں ہے بیکس و رنجور ہے دل
محبت پر مگر مجبور ہے دل
تمہارے نور سے معمور ہے دل
عجب کیا ہے کہ رشک طور ہے دل
تمہارے عشق سے مسرور ہے دل
ابھی تک مست ہے مخمور ہے دل
کیا ہے یاد اس یاد جہاں نے
الٰہی کس قدر مسرور ہے دل
بہت چاہا نہ جائیں تیرے در پر
مگر کیا کیجیے مجبور ہے دل
فقیری میں اسے حاصل ہے شاہی
تمہارے عشق پر مغرور ہے دل
ترے جلوے کا ہے جس دن سے مسکن
جواب جلوہ گاہ طور ہے دل
دو عالم کو بھلا دیں کیوں نہ اخترؔ
کہ اس کی یاد سے معمور ہے دل
غزل
حزیں ہے بیکس و رنجور ہے دل
اختر شیرانی