ہزاروں سال سے میں جس کے انتظار میں تھا
وہ عکس خواب تو میرے ہی اختیار میں تھا
وہ میری ذات کے پرتو سے ماہتاب ہوا
وگرنہ کرۂ بے نور کس شمار میں تھا
کوئی لگاؤ نہ تھا اب ہرے شجر سے مجھے
میں برگ خشک تھا اڑتے ہوئے غبار میں تھا
سفر میں یوں ہی جھلستا رہا خبر نہ ہوئی
کہ ٹھنڈے پانی کا چشمہ بھی رہ گزار میں تھا
میں بد گماں نہ کبھی اس سے ہو سکا اخترؔ
عجب طرح کا مزہ اس کے جھوٹے پیار میں تھا
غزل
ہزاروں سال سے میں جس کے انتظار میں تھا
احتشام اختر