ہزاروں مشکلیں ہیں اور لاکھوں غم لیے ہیں ہم
محبت کا مگر ہاتھوں میں اک پرچم لئے ہیں ہم
وہ نغمے جو خزاں کو پھر بہار نو بناتے ہیں
انہی گیتوں کی ہونٹوں پر نئی سرگم لئے ہیں ہم
ہمارے دل میں ہے جذبات کا تپتا ہوا سورج
جو پلکوں سے چنی وہ درد کی شبنم لئے ہیں ہم
مبارک ہو خرد والوں تمہیں فکر و نظر اپنی
ہیں اہل دل بہار عشق کے موسم لئے ہیں ہم
پلٹئے گر کبھی فرصت ملے اوراق ماضی کے
ہماری کیا صفت بھی اور کیا کیا غم لئے ہیں ہم
سمجھ لی اب حقیقت رہبران ملک کی سب نے
نمک چٹکی میں لے کر کہہ رہے مرہم لئے ہیں ہم

غزل
ہزاروں مشکلیں ہیں اور لاکھوں غم لیے ہیں ہم
شایان قریشی