ہزاروں منزلیں پھر بھی مری منزل ہے تو ہی تو
محبت کے سفر کا آخری حاصل ہے تو ہی تو
بلا سے کتنے ہی طوفاں اٹھے بحر محبت میں
ہر اک دھڑکن یہ کہتی ہے مرا ساحل ہے تو ہی تو
مجھے معلوم ہے انجام کیا ہوگا محبت کا
مسیحا تو ہی تو ہے اور مرا قاتل ہے تو ہی تو
کیا افشا محبت کو مری بے باک نظروں نے
زمانے کو خبر ہے مجھ سے بس غافل ہے تو ہی تو
ترے بخشے ہوئے رنگوں سے ہے پر نور ہر منظر
یقیناً بحر و بر کی روح میں شامل ہے تو ہی تو
تجھی سے گفتگو ہر دم تری ہی جستجو ہر دم
مری آسانیاں تجھ سے مری مشکل ہے تو ہی تو
جدھر جاؤں جدھر دیکھوں ترے قصے تری باتیں
سر محفل ہے تو ہی تو پس محمل ہے تو ہی تو

غزل
ہزاروں منزلیں پھر بھی مری منزل ہے تو ہی تو
'امیتا پرسو رام 'میتا