ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں
مگر پہچاننے والے کہاں ہیں
کہیں پر سلسلہ ہے کوٹھیوں کا
کہیں گرتے کھنڈر ہیں نالیاں ہیں
کہیں ہنستی چمکتی صورتیں ہیں
کہیں مٹتی ہوئی پرچھائیاں ہیں
کہیں آواز کے پردے پڑے ہیں
کہیں چپ میں کئی سرگوشیاں ہیں
قطب صاحب کھڑے ہیں سر جھکائے
قلعے پر گدھ بہت ہی شادماں ہیں
ارے یہ کون سی سڑکیں ہیں بھائی
یہاں تو لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں
لکھا ملتا ہے دیواروں پہ اب بھی
تو کیا اب بھی وہی بیماریاں ہیں
حوالوں پر حوالے دے رہے ہیں
یہ صاحب تو کتابوں کی دکاں ہیں
مرے آگے مجھی کو کوستے ہیں
مگر کیا کیجیے اہل زباں ہیں
دکھایا ایک ہی دلی نے کیا کیا
برا ہو اب تو دو دو دلیاں ہیں
یہاں بھی دوست مل جاتے ہیں علویؔ
یہاں بھی دوستوں میں تلخیاں ہیں
غزل
ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں
محمد علوی