ہزاروں غم ہیں لیکن بار غم دل پر نہ رکھوں گا
یہ نازک آبگینہ اس پہ میں پتھر نہ رکھوں گا
وہ موسم وہ فضا وہ ساعتیں تیرے بچھڑنے کی
میں اپنے ذہن میں ماضی کے پس منظر نہ رکھوں گا
کوئی مسکن نہ ہوگا اب مری بے خواب راتوں کا
میں اپنے دشمنوں کے بیچ اپنا گھر نہ رکھوں گا
چلوں گا ساتھ اپنے کاروان سر خوشی لے کر
جلو میں اب غم اندوہ کا لشکر نہ رکھوں گا
مرا کیا ہے مجھے کانٹوں پہ سو لینے کی عادت ہے
مصاف زندگی میں بالش و بستر نہ رکھوں گا
بہت محتاط رہنے پر بھی اکثر بھیگ جاتا ہے
میں کوشش لاکھ کرتا ہوں کہ دامن تر نہ رکھوں گا
بجا ہے اے حزیںؔ مجرم ہوں ناکردہ گناہی کا
مگر الزام جینے کا میں اپنے سر نہ رکھوں گا
غزل
ہزاروں غم ہیں لیکن بار غم دل پر نہ رکھوں گا
جنید حزیں لاری