ہزاروں آرزوئیں ساتھ ہیں اس پر اکیلی ہے
ہماری روح بے بوجھی ہوئی اب تک پہیلی ہے
بڑھاپا ہو تو ہو اس ربط میں کیوں کر خلل آئے
مری یاس و تمنا بچپنے سے ساتھ کھیلی ہے
اجل بھی ٹل گئی دیکھی گئی حالت نہ آنکھوں سے
شب غم میں مصیبت سی مصیبت ہم نے جھیلی ہے
عدم کا تھا سفر جب اور کچھ توشہ نہ ہاتھ آیا
بہت سی آرزو چلتے چلاتے ساتھ لے لی ہے
ذرا دیکھو تو ان اترے ہوئے چہروں کو پھولوں کے
معاذ اللہ جھونکا ہے خزاں کا یا کہ سیلی ہے
کبھی جمنے نہ دیتی بے خودی خاطر پہ نقش ان کا
بہ مشکل میں نے یہ تصویر اسی عیار سے لی ہے
ہماری اور گلوں کی ایک ہے نشوونما لیکن
وہاں مٹھی میں زر ہے اور یہاں خالی ہتھیلی ہے
نہ پوچھو شادؔ ویرانی کو دل کی کیا بتاؤں میں
تمنا جا چکی حسرت غریب اس میں اکیلی ہے
غزل
ہزاروں آرزوئیں ساتھ ہیں اس پر اکیلی ہے
شاد عظیم آبادی