ہزار صحرا تھے رستے میں یار کیا کرتا
جو چل پڑا تھا تو فکر غبار کیا کرتا
کبھی جو ٹھیک سے خود کو سمجھ نہیں پایا
وہ دوسروں پہ بھلا اعتبار کیا کرتا
چلو یہ مانا کہ اظہار بھی ضروری ہے
سو ایک بار کیا، بار بار کیا کرتا
اسی لیے تو در آئنہ بھی وا نہ کیا
جو سو رہے ہیں انہیں ہوشیار کیا کرتا
وہ اپنے خواب کی تفسیر خود نہ کر پایا
جہان بھر پہ اسے آشکار کیا کرتا
اگر وہ کرنے پہ آتا تو کچھ بھی کر جاتا
یہ سوچ مت کہ اکیلا شرار کیا کرتا
سوائے یہ کہ وہ اپنے بھی زخم تازہ کرے
مرے غموں پہ مرا غم گسار کیا کرتا
بس ایک پھول کی خاطر بہار مانگی تھی
رتوں سے ورنہ میں قول و قرار کیا کرتا
مرا لہو ہی کہانی کا رنگ تھا جوادؔ
کہانی کار اسے رنگ دار کیا کرتا
غزل
ہزار صحرا تھے رستے میں یار کیا کرتا
جواد شیخ