EN हिंदी
ہزار رنگ جلال و جمال کے دیکھے | شیح شیری
hazar rang jalal-o-jamal ke dekhe

غزل

ہزار رنگ جلال و جمال کے دیکھے

روحی کنجاہی

;

ہزار رنگ جلال و جمال کے دیکھے
وہ معرکے ترے حسن خیال کے دیکھے

سمجھ میں آنے لگا مقصد حیات و ممات
وہ زاویے ترے ہجر و وصال کے دیکھے

ہر ایک غم ہے تر و تازہ پہلے دن کی طرح
امانتیں کوئی یوں بھی سنبھال کے دیکھے

فضا نہ بجھنے لگے اس خیال سے اکثر
دل و نگاہ کے رستے اجال کے دیکھے

نگر بھی اور کھنڈر بھی نظر میں رہتے ہیں
عجیب دور عروج و زوال کے دیکھے

کہ رشک آنے لگا اپنی بے کمالی پر
کمال ایسے بھی اہل کمال کے دیکھے

نہ چشم اشارے سے واقف نہ لب کا حرف سے ربط
کچھ ایسے سلسلے بھی قیل و قال کے دیکھے

زمیں زمیں نہ رہی اور فلک فلک نہ رہا
کچھ ایسے مرحلے بھی عرض حال کے دیکھے

کوئی صدی بھی ہے پل اور کوئی پل بھی صدی
کچھ ایسے فاصلے بھی ماہ و سال کے دیکھے

ہوئی زمین کبھی راکھ تو کبھی غرقاب
کچھ ایسے حوصلے بھی برشگال کے دیکھے

عجیب شرط ہے ان منظروں کی اے روحیؔ
کہ اپنی آنکھیں کوئی خود نکال کے دیکھے