ہزار ہم سفروں میں سفر اکیلا ہے
یہ انتشار کہ اک اک بشر اکیلا ہے
گلو بریدہ سبھی ہیں مگر زہے توقیر
بلند نوک سناں پر یہ سر اکیلا ہے
نہ پتیاں ہیں نہ پھل پھول پھر بھی چھاؤں تو دیکھ
سنا تھا میں نے کہ غم کا شجر اکیلا ہے
یہ بھیڑ خاک دکھائے گی شان بے جگری
یہ اس کا حق ہے جو سینہ سپر اکیلا ہے
لپٹ کے روح سے کہتا رہا بدن کل رات
نہ جاؤ چھوڑ کے مجھ کو کہ گھر اکیلا ہے
متاع قلب و جگر کس کو سونپ دوں ساغرؔ
ہجوم بے ہنری میں ہنر اکیلا ہے

غزل
ہزار ہم سفروں میں سفر اکیلا ہے
ساغر مہدی