ہزار حادثات غم رواں دواں لیے ہوئے
کہاں چلی ہے زندگی کشاں کشاں لیے ہوئے
مرے نصیب کی یہ ظلمتیں نہ مٹ سکیں کبھی
کوئی گزر گیا ہزار کہکشاں لیے ہوئے
یہ زندگی بدلتے موسموں کا رنگ روپ ہے
کبھی بہار کا سماں کبھی خزاں لیے ہوئے
مرا یہ کرب ہے کہ میرا کارواں گزر گیا
سمٹ کے رہ گیا ہوں گرد کارواں لیے ہوئے
اگر وہ جان آرزو ملے تو اس کی نذر ہو
کھڑا ہوں کب سے منتظر میں نقد جاں لیے ہوئے
مرے وقار کا سوال تھا میں کچھ نہ کہہ سکا
گزر گئے وہ راحتوں کا اک جہاں لیے ہوئے
کسی بھی زاویے سے عرشؔ اس کو دیکھیے مگر
قدم قدم پہ زندگی ہے امتحاں لیے ہوئے
غزل
ہزار حادثات غم رواں دواں لیے ہوئے
عرش صہبائی