EN हिंदी
ہزار بار اسے ناکامیوں نے سمجھایا | شیح شیری
hazar bar use nakaamiyon ne samjhaya

غزل

ہزار بار اسے ناکامیوں نے سمجھایا

مسعود حسین خاں

;

ہزار بار اسے ناکامیوں نے سمجھایا
مگر یہ دل تری الفت سے باز کب آیا

وہی لگن ہے کہ چلئے جہاں کہیں تو ہو
وہی چبھن کہ محبت سے ہم نے کیا پایا

کھلے گا راز کہ آنچل کی کیا حقیقت ہے
کبھی جو سر سے محبت کے یہ ڈھلک آیا

گلوں کے گھاؤ بھی شبنم سے دھل سکے ہیں کبھی
کہ اشک نے مرے زخموں کو اور مہکایا

وہ کیا مقام ہے دامن کی آرزو میں ندیم
جہاں پہ دست تمنا بھی جا کے تھرایا

یہاں بہار نہ جان بہار ہے مسعودؔ
کہاں سے طرفہ غزل آج پھر یہ کہہ لایا