ہزار بار اسے ناکامیوں نے سمجھایا
مگر یہ دل تری الفت سے باز کب آیا
وہی لگن ہے کہ چلئے جہاں کہیں تو ہو
وہی چبھن کہ محبت سے ہم نے کیا پایا
کھلے گا راز کہ آنچل کی کیا حقیقت ہے
کبھی جو سر سے محبت کے یہ ڈھلک آیا
گلوں کے گھاؤ بھی شبنم سے دھل سکے ہیں کبھی
کہ اشک نے مرے زخموں کو اور مہکایا
وہ کیا مقام ہے دامن کی آرزو میں ندیم
جہاں پہ دست تمنا بھی جا کے تھرایا
یہاں بہار نہ جان بہار ہے مسعودؔ
کہاں سے طرفہ غزل آج پھر یہ کہہ لایا

غزل
ہزار بار اسے ناکامیوں نے سمجھایا
مسعود حسین خاں