ہزار بار مٹی اور پائمال ہوئی ہے
ہماری زندگی تب جا کے بے مثال ہوئی ہے
اسی سبب سے تو پرچھائیں اپنے ساتھ نہیں ہے
صعوبت سفر شوق سے نڈھال ہوئی ہے
سکون پھر بھی تو وحشت سرائے دل میں نہیں ہے
نگاہ یار اگرچہ شریک حال ہوئی ہے
خوشی کے لمحے تو جوں توں گزر گئے ہیں یہاں پر
بس ایک ساعت غم کاٹنی محال ہوئی ہے
لکیر نور کی جو آسمان دل پہ بنی ہے
اندھیری رات کا حملہ ہوا تو ڈھال ہوئی ہے
غزل
ہزار بار مٹی اور پائمال ہوئی ہے
شہریار