EN हिंदी
حیات مجھ پہ اک الزام ہی سہی پھر بھی | شیح شیری
hayat mujh pe ek ilzam hi sahi phir bhi

غزل

حیات مجھ پہ اک الزام ہی سہی پھر بھی

مکین احسن کلیم

;

حیات مجھ پہ اک الزام ہی سہی پھر بھی
بہت عزیز ہے مجھ کو یہ زندگی پھر بھی

نہیں کچھ اور تو ممکن تھی خود کشی پھر بھی
ہے کوئی بات کہ جیتا ہے آدمی پھر بھی

یہ تیرگی تو بس اک گردش زمیں تک ہے
مگر یہ رات جو ہم سے نہ کٹ سکی پھر بھی

چمن لٹا ہے خود اہل چمن کی سازش سے
کلی کلی ہے مگر محو خواب سی پھر بھی

کسی کو پا کے بھی اکثر گماں یہ ہوتا ہے
کہ جیسے رہ گئی باقی کوئی کمی پھر بھی

ہمیں پہ یورش ظلمت ہمیں ہیں کشتۂ شب
ہمیں ہیں پیش رو صبح و روشنی پھر بھی

لب کلیمؔ پہ اب نغمۂ بہار تو ہے
یہ اور بات کہ آنکھیں ہیں شبنمی پھر بھی