حیات کی بے رخی نئی ہے نہ اپنی کم مائیگی نئی ہے
پھر آج جذبات غم کی موجوں میں کیسی یہ بیکلی نئی ہے
نہ جانے حرف طلب ہے نادم کہ بے زبانی زباں ہے اپنی
دھڑک رہا ہے دل تمنا کہ منزل عاشقی نئی ہے
وہی ہے جادہ وہی سفر ہے وہی ہے منظر وہی نظر ہے
مگر بہ انداز آشنائی ہماری وارفتگی نئی ہے
زوال ہستی کے نوحہ خواں تھے کوئی ہماری زباں نہ سمجھا
بجھے ہیں سینوں میں دل سبھی کے کہ اپنی آشفتگی نئی ہے
جو حرف دل پر رقم کئے تھے وہ لے اڑیں یاس کی ہوائیں
اب اس بیابان آرزو میں ہماری بے چارگی نئی ہے
نہ کوئی درد آشنا نہ ہمدم نہ کوئی سوز دروں کا محرم
ہمیں یہاں اجنبی ہیں جانے کہ ساری دنیا نئی نئی ہے
میں نقد جاں تک لٹا چکی تھی نفس میں شعلے جلا چکی تھی
طلسم خواب اب کہاں سے آیا یہ منزل بے خودی نئی ہے

غزل
حیات کی بے رخی نئی ہے نہ اپنی کم مائیگی نئی ہے
ساجدہ زیدی