ہوس نے مجھ سے پوچھا تھا تمہارا کیا ارادہ ہے
بدن کار محبت میں برائے استفادہ ہے
کبھی پہنا نہیں اس نے مرے اشکوں کا پیراہن
اداسی میری آنکھوں میں ازل سے بے لبادہ ہے
بھڑک کر شعلۂ وحشت لہو میں بجھ گیا ہوگا
ذرا سی آگ تھی لیکن دھواں کتنا زیادہ ہے
اگر تم غور سے دیکھو رخ مہتاب کم پڑ جائے
فلک پر اک ستارے کی جبیں اتنی کشادہ ہے
مجھے مسکن سمجھتے ہیں عجب آسیب ہیں غم کے
میں اک دو سے نمٹ بھی لوں یہ پورا خانوادہ ہے
اسے دھندے سے مطلب ہے وہ دیمک بیچنے والا
اسے وہ خاک سمجھے گا یہ خوابوں کا برادہ ہے
ہم اس سے چاہ کر بھی بچ نہیں سکتے کسی صورت
نبھانا پڑتا ہے اس کو محبت ایک وعدہ ہے
مجھے شطرنج کے خانوں میں چلنا تو سکھائے گا
میں فرضی بن چکا کب کا تو اب تک اک پیادہ ہے
نہ جانے کاتب تقدیر نے کیا لکھ دیا اس پر
مری تقدیر کا صفحہ نہ سیدھا ہے نہ سادہ ہے
میں اس حالت میں زیبؔ آخر کہاں چلتے ہوئے جاؤں
نہ مجھ میں حوصلہ باقی نہ منزل ہے نہ جادہ ہے
غزل
ہوس نے مجھ سے پوچھا تھا تمہارا کیا ارادہ ہے
اورنگ زیب