EN हिंदी
ہوس کی دنیا میں رہنے والوں کو میں محبت سکھا رہا ہوں | شیح شیری
hawas ki duniya mein rahne walon ko main mohabbat sikha raha hun

غزل

ہوس کی دنیا میں رہنے والوں کو میں محبت سکھا رہا ہوں

بسمل سعیدی

;

ہوس کی دنیا میں رہنے والوں کو میں محبت سکھا رہا ہوں
جہاں پہ دامن بچھے ہوئے ہیں وہاں پر آنکھیں بچھا رہا ہوں

سرود غم پر بھی زندگی میں طرب کے دھارے بہا رہا ہوں
میں ان کے ساز جفا پر اپنی وفا کے نغمے سنا رہا ہوں

الٰہی دنیا میں اور کچھ دن ابھی قیامت نہ آنے پائے
ترے بنائے ہوئے بشر کو ابھی میں انساں بنا رہا ہوں

عدم کے تاریک راستے میں کوئی مسافر نہ راہ بھولے
میں شمع ہستی بجھا کر اپنی چراغ تربت جلا رہا ہوں

میں اپنی طرز جنوں کے صدقے مرا جنوں بھی عجب جنوں ہے
کسی کا دامن پکڑ رہا ہوں کسی سے دامن چھڑا رہا ہوں

ابھی تو آیا ہی تھا وہاں سے کبھی نہ جانے کا عہد کر کے
مگر محبت زہے محبت ابھی وہیں سے پھر آ رہا ہوں

ملی ہے کانٹوں کی مجھ کو قسمت مگر ہے پھولوں کی میری فطرت
جہاں ہوں پامال غم ہوں لیکن جہاں بھی ہوں مسکرا رہا ہوں

چلا ہے شوق سجود لے کر الٰہی یہ کس کے در کی جانب
ابھی تو پہلا قدم اٹھا ہے ابھی سے میں سر جھکا رہا ہوں

تری نظر کیا میں اپنے دل سے بھی گر کے جاتا ہوں انجمن سے
جہاں کہ ہوتی ہے ختم دوری وہاں سے بھی دور جا رہا ہوں

یہ کس کے کوچے میں گامزن ہوں یہ آستاں کس کا سامنے ہے
میں اپنے قدموں پر آج بسملؔ سر دو عالم جھکا رہا ہوں