ہوس کا دام پھیلایا ہوا ہے
دل معصوم گھبرایا ہوا ہے
کسی شیشہ پہ بال آیا ہوا ہے
دل غم ناک تھرایا ہوا ہے
تمنا خلد کی اور مے پرستی
یہ واعظ کس کا بہکایا ہوا ہے
کہاں لے جاؤں رغبت آشیاں کی
اندھیرا ہر طرف چھایا ہوا ہے
جہاں ہو کار فرما زر پرستی
وہاں ذوق خدا آیا ہوا ہے
خدارا اس طرف بھی اک نظر ہو
کسی نے ہاتھ پھیلایا ہوا ہے
زبان ضبطؔ نے اردو زباں میں
گل صد برگ مہکایا ہوا ہے

غزل
ہوس کا دام پھیلایا ہوا ہے
شیو چرن داس گوئل ضبط