ہوس زلف گرہ گیر لیے بیٹھے ہیں
آیت شوق کی تفسیر لیے بیٹھے ہیں
آسماں ساتھ چلا گھر کی زمیں دور ہوئی
تجھ سے دور اک رہ دلگیر لیے بیٹھے ہیں
وجہ تعزیر ہوئی بے وطنی بھی جب سے
عنبریں ہاتھوں کی تحریر لیے بیٹھے ہیں
آپ سے آپ وہ کھلتی ہوئی زلفیں تیری
اب اسی سوگ کی تصویر لیے بیٹھے ہیں
ہائے کیا عہد جوانی و محبت ہے کہ ہم
اک نہ اک مرنے کی تدبیر لیے بیٹھے ہیں
زندگی بے در و دیوار مکاں ہے کوئی
کب سے اک حسرت تعمیر لیے بیٹھے ہیں
کوئی اپنوں ہی میں قاتل ہے تو ہم چپ سے شہابؔ
زخم کھائے ہوئے شمشیر لیے بیٹھے ہیں
غزل
ہوس زلف گرہ گیر لیے بیٹھے ہیں
شہاب جعفری