ہوس وقت کا اندازہ لگایا جائے
رات پاگل ہوئی دروازہ لگایا جائے
آشنا شہر کی آنکھوں میں نیا شخص لگوں
ایسا چہرے پہ کوئی غازہ لگایا جائے
بیتے موسم میں جو پھل آئے کسیلے نکلے
اب کوئی پیڑ یہاں تازہ لگایا جائے
بھاگتے دوڑتے شہروں کو پنہا کر زنجیر
خلوت جاں کا بھی اندازہ لگایا جائے
میں بکھر جاؤں نہ کاغذ کی طرح کمرے میں
تیز طوفان ہے دروازہ لگایا جائے
غزل
ہوس وقت کا اندازہ لگایا جائے
شکیب ایاز