ہوس بلا کی محبت ہمیں بلا کی ہے
کبھی بتوں کی خوشامد کبھی خدا کی ہے
کسی کو چاہنے والے یہی تو کرتے ہیں
بڑا کمال کیا ہے اگر وفا کی ہے
گزر بسر ہے ہماری فقط قناعت پر
نصیب نے یہی دولت ہمیں عطا کی ہے
تمام رات پڑی تھی گزارنے کے لیے
چنانچہ ختم صراحی ذرا ذرا کی ہے
شراب سے کوئی رغبت نہیں ہے محتسبو
حکیم نے ہمیں تجویز یہ دوا کی ہے
ذرا سی دیر کو آئے تھے شیخ ادھر لیکن
یہیں جناب نے مغرب یہیں عشا کی ہے
تمہارا چہرۂ پر نور دیکھتا ہوں تو
یقین ہی نہیں آتا کہ جسم خاکی ہے
مجھے عزیز نہ ہو کیوں رجائیت اپنی
یہ غم شریک مرے دور ابتلا کی ہے
شعورؔ خود کو ذہین آدمی سمجھتے ہیں
یہ سادگی ہے تو واللہ انتہا کی ہے
غزل
ہوس بلا کی محبت ہمیں بلا کی ہے
انور شعور