EN हिंदी
ہواؤں کے مقابل ہوں | شیح شیری
hawaon ke muqabil hun

غزل

ہواؤں کے مقابل ہوں

پوجا بھاٹیا

;

ہواؤں کے مقابل ہوں
چراغوں کی وہ محفل ہوں

خدا جانے کہاں ہوں میں
نہ باہر ہوں نہ شامل ہوں

مرے کاندھے پہ وہ بکھرے
ہیں موج اک وہ میں ساحل ہوں

یہ چادر سلوٹیں تکیہ
بتاتے ہیں میں غافل ہوں

میں جو چاہوں وہ پا لوں پر
ابھی خود ہی سے غافل ہوں

یہاں سب بے سہارا ہے
سہارا دوں؟ میں باطل ہوں

امیدیں تم سے رکھتی ہوں
کہو تو کتنی جاہل ہوں

جوا ہے زندگی جیسے
جو جیتے اس کو حاصل ہوں

رہے زد میں جنوں جس کے
اسی کو پھر میں حاصل ہوں