EN हिंदी
ہوا زمانے کی ساقی بدل تو سکتی ہے | شیح شیری
hawa zamane ki saqi badal to sakti hai

غزل

ہوا زمانے کی ساقی بدل تو سکتی ہے

سلام ؔمچھلی شہری

;

ہوا زمانے کی ساقی بدل تو سکتی ہے
حیات ساغر رنگیں میں ڈھل تو سکتی ہے

بس اک لطیف تبسم بس اک حسین نظر
مریض دل کی یہ حالت سنبھل تو سکتی ہے

جہاں سے چھوڑ رہے ہو مجھے اندھیرے میں
وہیں سے راہ محبت نکل تو سکتی ہے

پھر اپنے غنچۂ زخم جگر کا کیا ہوگا
نسیم صبح مری سمت چل تو سکتی ہے

تری نگاہ کرم کی قسم ہے اب بھی مجھے
یہی یقین کہ دنیا بدل تو سکتی ہے

سلامؔ جام و سبو کی یہ شاعری معلوم
وگرنہ اپنی طبیعت بہل تو سکتی ہے