ہوا سے استفادہ کر لیا ہے
چراغوں کے لبادہ کر لیا ہے
بہت جینے کی خواہش ہو رہی تھی
سو مرنے کا ارادا کر لیا ہے
میں گھٹتا جا رہا ہوں اپنے اندر
تمہیں اتنا زیادہ کر لیا ہے
جو کندھوں پر اٹھائے پھر رہا تھا
وہ خیمہ ایستادہ کر لیا ہے
نہ تھا کچھ بھی مری پیچیدگی میں
تو میں نے خود کو سادہ کر لیا ہے
غزل
ہوا سے استفادہ کر لیا ہے
سالم سلیم