ہوا سے بادہ نچوڑیں کلی کو جام کریں
سکوت رنگ چمن سے ذرا کلام کریں
ہمیں تو کوئی بھی پہچانتا نہیں ہے یہاں
نگاہ کس سے ملائیں کسے سلام کریں
زمانہ اس پہ تلا ہے خرد کی بات رہے
ہمیں یہ ضد ہے کہ اونچا جنوں کا نام کریں
فضا ہے گوش بر آواز چپ ہیں اہل نوا
اب اس ادھوری کہانی کو ہم تمام کریں
تمہارے جام کو پہلے نظر سے چھلکا دیں
پھر اپنے ہوش میں آ کر طواف جام کریں
کسی غزال میں بھی اب نہیں رم وحشت
ہم اپنے سحر تمنا سے کس کو رام کریں
خلوص دل کا صلہ سوز آرزو کا گہر
اسی گہر فریدؔی چراغ شام کریں
غزل
ہوا سے بادہ نچوڑیں کلی کو جام کریں
مغیث الدین فریدی