EN हिंदी
ہوا و حرص کی دنیا میں در بدر ہوئے ہم | شیح شیری
hawa-o-hirs ki duniya mein dar-ba-dar hue hum

غزل

ہوا و حرص کی دنیا میں در بدر ہوئے ہم

محسن احسان

;

ہوا و حرص کی دنیا میں در بدر ہوئے ہم
خبر جہاں کی رکھی خود سے بے خبر ہوئے ہم

قفس میں تھے تو پر و بال تھے شریک ملال
چمن میں آئے تو محروم بال و پر ہوئے ہم

کنارہ گیر تماشائیوں سے کیسا گلہ
ہر ایک موجۂ طوفاں کے ہم سفر ہوئے ہم

ہمارے حوصلے کی داد تو عدو نے بھی دی
چلے ہیں ناوک دشنام تو سپر ہوئے ہم

وہ جس سفر میں مراد سفر یقینی تھی
اسی سفر پہ نہ آمادۂ سفر ہوئے ہم

ہماری منزلت و قدر اپنے فن سے ہے
ہنر شناس ہوئے ہم تو معتبر ہوئے ہم

ہمارے پاس ہے محسنؔ متاع حیرانی
وہ انتظار رہا ہے کہ چشم در ہوئے ہم