ہوا نے دوش سے جھٹکا تو آب پر ٹھہرا
میں کچھ بھنور میں گرا کچھ حباب پر ٹھہرا
زمیں سے جذب یہ پگھلی سی نکہتیں نہ ہوئیں
عروس شب کا پسینہ گلاب پر ٹھہرا
غم و نشاط کا کتنا حسین سنگم ہے
کہ تارہ آنکھ سے ٹوٹا شراب پر ٹھہرا
روپہلی جھیل کی موجوں میں اضطراب سا ہے
قدم یہ کس کا سنہرے سراب پر ٹھہرا
میں لفظ خام ہوں کوئی کہ ترجمان غزل
یہ فیصلہ کسی تازہ کتاب پر ٹھہرا
غزل
ہوا نے دوش سے جھٹکا تو آب پر ٹھہرا
جمنا پرشاد راہیؔ