EN हिंदी
ہوا نے دوش سے جھٹکا تو آب پر ٹھہرا | شیح شیری
hawa ne dosh se jhaTka to aab par Thahra

غزل

ہوا نے دوش سے جھٹکا تو آب پر ٹھہرا

جمنا پرشاد راہیؔ

;

ہوا نے دوش سے جھٹکا تو آب پر ٹھہرا
میں کچھ بھنور میں گرا کچھ حباب پر ٹھہرا

زمیں سے جذب یہ پگھلی سی نکہتیں نہ ہوئیں
عروس شب کا پسینہ گلاب پر ٹھہرا

غم و نشاط کا کتنا حسین سنگم ہے
کہ تارہ آنکھ سے ٹوٹا شراب پر ٹھہرا

روپہلی جھیل کی موجوں میں اضطراب سا ہے
قدم یہ کس کا سنہرے سراب پر ٹھہرا

میں لفظ خام ہوں کوئی کہ ترجمان غزل
یہ فیصلہ کسی تازہ کتاب پر ٹھہرا