EN हिंदी
ہوا نمناک ہوتی جا رہی ہے | شیح شیری
hawa namnak hoti ja rahi hai

غزل

ہوا نمناک ہوتی جا رہی ہے

رئیس الدین رئیس

;

ہوا نمناک ہوتی جا رہی ہے
حویلی خاک ہوتی جا رہی ہے

دریچہ کھولتے ہی تھم گئی ہے
ہوا چالاک ہوتی جا رہی ہے

ہمارے حوصلوں کے آگے مشکل
خس و خاشاک ہوتی جا رہی ہے

لہو کے ہاتھ دھوئے جا رہے ہیں
ندی ناپاک ہوتی جا رہی ہے

نئی تہذیب سے یہ نسل نو اب
بہت بیباک ہوتی جا رہی ہے

سمندر تھام لے موجوں کو اپنی
زمیں تیراک ہوتی جا رہی ہے

محبت نفرتوں کے بیچ پل کر
بڑی سفاک ہوتی جا رہی ہے

بہ فیض شاعری شہر ہنر میں
ہماری دھاک ہوتی جا رہی ہے