ہوا نمناک ہوتی جا رہی ہے
حویلی خاک ہوتی جا رہی ہے
دریچہ کھولتے ہی تھم گئی ہے
ہوا چالاک ہوتی جا رہی ہے
ہمارے حوصلوں کے آگے مشکل
خس و خاشاک ہوتی جا رہی ہے
لہو کے ہاتھ دھوئے جا رہے ہیں
ندی ناپاک ہوتی جا رہی ہے
نئی تہذیب سے یہ نسل نو اب
بہت بیباک ہوتی جا رہی ہے
سمندر تھام لے موجوں کو اپنی
زمیں تیراک ہوتی جا رہی ہے
محبت نفرتوں کے بیچ پل کر
بڑی سفاک ہوتی جا رہی ہے
بہ فیض شاعری شہر ہنر میں
ہماری دھاک ہوتی جا رہی ہے

غزل
ہوا نمناک ہوتی جا رہی ہے
رئیس الدین رئیس