EN हिंदी
ہوا ناسازگار گلستاں معلوم ہوتی ہے | شیح شیری
hawa na-sazgar-e-gulsitan malum hoti hai

غزل

ہوا ناسازگار گلستاں معلوم ہوتی ہے

آنند نرائن ملا

;

ہوا ناسازگار گلستاں معلوم ہوتی ہے
اگر ہنستی بھی ہیں کلیاں فغاں معلوم ہوتی ہیں

خوشی میں اپنی خوش بختی کہاں معلوم ہوتی ہے
قفس میں جا کے قدر آشیاں معلوم ہوتی ہے

ہر اک کے ظرف کی وسعت یہاں معلوم ہوتی ہے
محبت آدمی کا امتحاں معلوم ہوتی ہے

کبھی شاید محبت کا کوئی حاصل نکل آئے
ابھی تو رائیگاں ہی رائیگاں معلوم ہوتی ہے

یہ دل کو کر دیا کیسا کسی کی کم نگاہی نے
ذرا سی پھانس چبھتی ہے سناں معلوم ہوتی ہے

کھنچ آتی ہیں اسی ساحل پہ خود دو اجنبی موجیں
محبت ایک جذب بے اماں معلوم ہوتی ہے

افق ہی پر ابھی تک ہیں تصور کی حسیں شامیں
کہیں ٹھہری ہوئی عمر رواں معلوم ہوتی ہیں

تم اس حالت کو کیا جانو نہ جانو ہی تو اچھا ہے
ہنسی جب آ کے ہونٹوں پر فغاں معلوم ہوتی ہے

تری بے مہریاں آخر وہ نازک وقت لے آئیں
کہ اپنوں کی محبت بھی گراں معلوم ہوتی ہے

نظر آتا نہیں شبنم کا گرنا پھول کا کھلنا
محبت کی حقیقت ناگہاں معلوم ہوتی ہے

چمن کا درد ہے جس دل میں تو چاہے کہیں اٹھے
اسے اپنی ہی شاخ آشیاں معلوم ہوتی ہے

نظر پھرتی تھی وہ پہلے بھی لیکن یوں نہ پھرتی تھی
کچھ اب کی ختم ہوتی داستاں معلوم ہوتی ہے

ابھی خاکستر ملاؔ سے اٹھتا ہے دھواں کچھ کچھ
کہیں پر کوئی چنگاری تپاں معلوم ہوتی ہے