ہوا میں پھرتے ہو کیا حرص اور ہوا کے لیے
غرور چھوڑ دو اے غافلو خدا کے لیے
گرا دیا ہے ہمیں کس نے چاہ الفت میں
ہم آپ ڈوبے کسی اپنے آشنا کے لیے
جہاں میں چاہیئے ایوان و قصر شاہوں کو
یہ ایک گنبد گردوں ہے بس گدا کے لیے
وہ آئینہ ہے کہ جس کو ہے حاجت سیماب
اک اضطراب ہے کافی دل صفا کے لیے
تپش سے دل کا ہو کیا جانے سینے میں کیا حال
جو تیرے تیر کا روزن نہ ہو ہوا کے لیے
طبیب عشق کی دکاں میں ڈھونڈتے پھرتے
یہ دردمند محبت تری دوا کے لیے
جو ہاتھ آئے ظفرؔ خاک پائے فخراؔلدین
تو میں رکھوں اسے آنکھوں کے توتیا کے لیے
غزل
ہوا میں پھرتے ہو کیا حرص اور ہوا کے لیے
بہادر شاہ ظفر