ہوا میں کچھ تو گھلا تھا کہ ہونٹ نیلے ہوئے
گلے لگاتے ہی تازہ گلاب پیلے ہوئے
نہ دشت جان پہ برسی رفاقتوں کی پھوار
نہ آنکھ میں چمک آئی نہ لب ہی گیلے ہوئے
اندھیرے اوڑھنا چاہے تو بدلیاں چمکیں
چراغ اجالنا چاہے تو لاکھ حیلے ہوئے
تمام رات اسی کہر کے جزیرے پر
الجھ الجھ کے شعاعوں کے ہاتھ نیلے ہوئے
محبتوں کو بڑھاؤ کہ رنجشیں بھی مٹیں
سکوں نہ ہوگا اگر مختلف قبیلے ہوئے
کچھ اتنی تیز ہے یہ لفظ کی شراب اسے
کشید کرتے ہوئے ہاتھ بھی نشیلے ہوئے
تہوں میں بیٹھنا چاہا اگر کبھی سجادؔ
گلے کا ہار کئی بے طلب وسیلے ہوئے

غزل
ہوا میں کچھ تو گھلا تھا کہ ہونٹ نیلے ہوئے
سجاد بابر