ہوا میں آئے تو لو بھی نہ ساتھ لی ہم نے
پھر ایک عمر اندھیروں میں کاٹ دی ہم نے
دیے میں زور بہت تھا مگر نہ جانے کیوں
بس ایک حد سے نہ بڑھنے دی روشنی ہم نے
اٹھا اٹھا کے ترے ناز اے غم دنیا
خود آپ ہی تری عادت خراب کی ہم نے
وفا میں جھوٹ ملایا دلوں میں کھوٹ رکھا
کچھ اس طرح سے نبھائی ہے دوستی ہم نے
دعا کرو وہ کسی دل جلے کی آہ نہ ہو
افق کے پاس جو دیکھی ہے آگ سی ہم نے
عجیب سحر تھا دل کے قمار خانے میں
تب اٹھ کے آئے کہ ہستی بھی ہار دی ہم نے
قفس مثال تھی طارقؔ نعیم دنیا بھی
اسیر ہو کے گزاری ہے زندگی ہم نے
غزل
ہوا میں آئے تو لو بھی نہ ساتھ لی ہم نے
طارق نعیم