ہوا کی ڈور میں ٹوٹے ہوئے تارے پروتی ہے
یہ تنہائی عجب لڑکی ہے سناٹے میں روتی ہے
محبت میں لگا رہتا ہے اندیشہ جدائی کا
کسی کے روٹھ جانے سے کمی محسوس ہوتی ہے
خموشی کی قبا پہنے ہے محو گفتگو کوئی
برہنہ جسم تنہائی مرے پہلو میں سوتی ہے
یہ آنکھیں روز اپنے آنسوؤں کے سرخ ریشم سے
نیا کچھ خواب بنتی ہے کوئی سپنا سنجوتی ہے
لہو میں تیرنے لگتا ہے جب وہ چاند سا چہرا
ہوائے درد سینے میں کوئی نیزہ چبھوتی ہے
یہ شہر رفتگاں ہے اب یہاں کوئی نہیں آتا
یہ کس کے پاؤں کی آہٹ مجھے محسوس ہوتی ہے
بریدہ سر پڑا ہے کشتۂ امید صحرا میں
اداسی خاک پر بیٹھی ہوئی آنچل بھگوتی ہے
غزل
ہوا کی ڈور میں ٹوٹے ہوئے تارے پروتی ہے
شاہد کمال