ہوا کی اندھی پناہوں میں مت اچھال مجھے
زمیں حصار کشش سے نہ تو نکال مجھے
سوائے رنج ندامت نہ کچھ ملا تم کو
میں کہہ رہا تھا بناؤ نہ تم مثال مجھے
شکست دل نے عجب غم کو صورتیں دی ہیں
رفاقتوں کی گھڑی ہے ذرا سنبھال مجھے
میں خواب خواب جزیروں کی سیر کو نکلوں
اٹھا کے پردۂ شب حیرتوں میں ڈال مجھے
کبھی کبھی اسے دل سے عزیز تر جانا
یہ سر جو دوش پہ لگتا رہا وبال مجھے
زمین میں تری چاہت میں زیر دام آیا
اسیر کر نہیں پایا تھا کوئی جال مجھے
بیاض وقت پہ اس نے لکھا ہے نام مرا
یقین کر کہ نہ ہوگا کبھی زوال مجھے
سخن کے کچھ تو گہر میں بھی نذر کرتا چلوں
عجب نہیں کہ کریں یاد ماہ و سال مجھے
غزل
ہوا کی اندھی پناہوں میں مت اچھال مجھے
زبیر رضوی