EN हिंदी
ہوا کے زور سے جب بادبان پھٹنے لگے | شیح شیری
hawa ke zor se jab baadban phaTne lage

غزل

ہوا کے زور سے جب بادبان پھٹنے لگے

نواز عصیمی

;

ہوا کے زور سے جب بادبان پھٹنے لگے
مسافر اپنے خداؤں کے نام رٹنے لگے

ہمارے سینوں پے اب بھی بہت جگہ ہے جناب
مگر تمہارے ہی ترکش میں تیر گھٹنے لگے

یزید وقت ہوا جس گھڑی سے تخت نشیں
ہمارے نام کے خنجر ہر اک میں بٹنے لگے

مکان ہم نے بنا تو لیا کنارے پر
نہ ایسا ہو کے کنارے کی ریت کٹنے لگے

تمہاری خوشیاں بھی میری ہیں غم بھی میرے ہیں
یہ مال مفت نہیں جو ہر اک جھپٹنے لگے

اسے چراغ کا رتبہ کہوں یا رعب کہوں
ہوا کے پر مری دہلیز پر سمٹنے لگے

یہ کس نے پھینکا ہے پتھر دھدھکتے شعلوں پر
شرارے ہو کے جدا آگ سے اچٹنے لگے

بہت تھا زعم جنہیں اپنی شہ سواری پر
گرے کچھ ایسے کے سینہ کے بل گھسٹنے لگے

تیرے محل کے حصاروں کی اینٹ جھڑنے لگیں
نہ ایسا ہو تیرا شاہی وقار گھٹنے لگے

ہوئے ہیں شہر بدر ہم مگر خدا نہ کرے
مکان دھنسنے لگیں اور زمیں پلٹنے لگے

نوازؔ ہم ہی تھے جو راستہ نہیں بدلہ
وہ زلزلہ تھے کے دریا بھی رہ سے ہٹنے لگے