ہوا کے ساتھ یہ کیسا معاملہ ہوا ہے
بجھا چکی تھی جسے وہ دیا جلا ہوا ہے
حضور آپ کوئی فیصلہ کریں تو سہی
ہیں سر جھکے ہوئے دربار بھی لگا ہوا ہے
کھڑے ہیں سامنے کب سے مگر نہیں پڑھتے
وہ ایک لفظ جو دیوار پر لکھا ہوا ہے
ہے کس کا عکس جو دیکھا ہے آئینے سے الگ
یہ کیسا نقش ہے جو روح پر بنا ہوا ہے
یہ کس کا خواب ہے تعبیر کے تعاقب میں
یہ کیسا اشک ہے جو خاک میں ملا ہوا ہے
یہ کس کی یاد کی بارش میں بھیگتا ہے بدن
یہ کیسا پھول سر شاخ جاں کھلا ہوا ہے
ستارہ ٹوٹتے دیکھا تو ڈر گئی راحتؔ
خبر نہ تھی یہی تقدیر میں لکھا ہوا ہے
غزل
ہوا کے ساتھ یہ کیسا معاملہ ہوا ہے
حمیرا راحتؔ