EN हिंदी
ہوا کے رخ پر چراغ الفت کی لو بڑھا کر چلا گیا ہے | شیح شیری
hawa ke ruKH par charagh-e-ulfat ki lau baDha kar chala gaya hai

غزل

ہوا کے رخ پر چراغ الفت کی لو بڑھا کر چلا گیا ہے

حسن رضوی

;

ہوا کے رخ پر چراغ الفت کی لو بڑھا کر چلا گیا ہے
وہ اک دیے سے نہ جانے کتنے دیے جلا کر چلا گیا ہے

ہم اس کی باتوں کی بارشوں میں ہر ایک موسم میں بھیگتے تھے
وہ اپنی چاہت کے سارے منظر ہمیں دکھا کر چلا گیا ہے

اسی کے بارے میں حرف لکھے اسی پہ ہم نے غزل کہی ہے
جو کجلی آنکھوں سے میرے دل میں نقب لگا کر چلا گیا ہے

متاع جاں بھی اسی پہ واری اسی کے دم سے ہے سانس جاری
مرے بدن میں وہ خوشبوؤں کی ہوا بسا کر چلا گیا ہے

یہ فصل فکر و خیال اپنی اسی کے دم سے ہری بھری ہے
جو کچے کوٹھوں کے آنگنوں سے دھواں اٹھا کر چلا گیا ہے

ہماری آنکھوں میں رت جگے کی جھڑی لگی ہے اسی گھڑی سے
کہ جب سے کوئی غزال اپنی جھلک دکھا کر چلا گیا ہے

ہرن محبت کے سبزہ زاروں میں جانے کب چوکڑی بھریں گے
وہ جاتے جاتے سوال ایسا حسنؔ اٹھا کر چلا گیا ہے