ہوا کے رخ پر چراغ الفت کی لو بڑھا کر چلا گیا ہے
وہ اک دیے سے نہ جانے کتنے دیے جلا کر چلا گیا ہے
ہم اس کی باتوں کی بارشوں میں ہر ایک موسم میں بھیگتے تھے
وہ اپنی چاہت کے سارے منظر ہمیں دکھا کر چلا گیا ہے
اسی کے بارے میں حرف لکھے اسی پہ ہم نے غزل کہی ہے
جو کجلی آنکھوں سے میرے دل میں نقب لگا کر چلا گیا ہے
متاع جاں بھی اسی پہ واری اسی کے دم سے ہے سانس جاری
مرے بدن میں وہ خوشبوؤں کی ہوا بسا کر چلا گیا ہے
یہ فصل فکر و خیال اپنی اسی کے دم سے ہری بھری ہے
جو کچے کوٹھوں کے آنگنوں سے دھواں اٹھا کر چلا گیا ہے
ہماری آنکھوں میں رت جگے کی جھڑی لگی ہے اسی گھڑی سے
کہ جب سے کوئی غزال اپنی جھلک دکھا کر چلا گیا ہے
ہرن محبت کے سبزہ زاروں میں جانے کب چوکڑی بھریں گے
وہ جاتے جاتے سوال ایسا حسنؔ اٹھا کر چلا گیا ہے
غزل
ہوا کے رخ پر چراغ الفت کی لو بڑھا کر چلا گیا ہے
حسن رضوی