ہوا کے پر کترنا اب ضروری ہو گیا ہے
مرا پرواز بھرنا اب ضروری ہو گیا ہے
مرے اندر کئی احساس پتھر ہو رہے ہیں
یہ شیرازہ بکھرنا اب ضروری ہو گیا ہے
میں اکثر زندگی کے ان مراحل سے بھی گزرا
جہاں لگتا تھا مرنا اب ضروری ہو گیا ہے
مری خاموشیاں اب مجھ پہ حاوی ہو رہی ہیں
کہ کھل کر بات کرنا اب ضروری ہو گیا ہے
بلندی بھی نشیبوں کی طرح لگنے لگی ہے
بلندی سے اترنا اب ضروری ہو گیا ہے
میں اس یک رنگئ حالات سے اکتا چکا ہوں
حقیقت سے مکرنا اب ضروری ہو گیا ہے
مری آنکھیں بہت ویران ہوتی جا رہی ہیں
خلا میں رنگ بھرنا اب ضروری ہو گیا ہے
غزل
ہوا کے پر کترنا اب ضروری ہو گیا ہے
خوشبیر سنگھ شادؔ