ہوا کا حکم بھی اب کے نظر میں رکھا جائے
کسی بھی رخ پہ دریچہ نہ گھر میں رکھا جائے
یہ کائنات ابھی تک مرے طواف میں ہے
عجب نہیں اسے یوں ہی سفر میں رکھا جائے
میں سنگ سادہ ہوں لیکن مری یہ حسرت ہے
مکان دوست کے دیوار و در میں رکھا جائے
یہ جل بجھے گا اسی زعم آگہی کے سبب
دیے کو اور نہ باب خبر میں رکھا جائے
نشہ اڑان کا ایسے اترنے والا نہیں
کچھ اور وزن مرے بال و پر میں رکھا جائے
کوئی کہیں نہ کہیں اک کمی سی ہے مجھ میں
مجھے دوبارہ گل کوزہ گر میں رکھا جائے
وہ آئینہ ہے تو حیرت کسی جمال کی ہو
جو سنگ ہے تو کہیں رہ گزر میں رکھا جائے
وہ چاہتا ہے کہ طارقؔ نعیم تجھ کو بھی
تمام عمر اسی کے اثر میں رکھا جائے
غزل
ہوا کا حکم بھی اب کے نظر میں رکھا جائے
طارق نعیم