ہوا جب کسی کی کہانی کہے ہے
نئے موسموں کی زبانی کہے ہے
فسانہ ہے جسموں کا بے شک زمینی
مگر روح تو آسمانی کہے ہے
تجھے چل ذرا سا میں میٹھا بنا دوں
سمندر سے دریا کا پانی کہے ہے
ڈسا رت جگوں نے ہے خوابوں کو پھر سے
سلگتی ہوئی رات رانی کہے ہے
لٹیں چند چاندی کی بخشیں تجھے جا
وداع لیتی مجھ سے جوانی کہے ہے
ہے چڑھنے لگی پھر سے ڈھلتی ہوئی عمر
تری شرٹ یہ زعفرانی کہے ہے
نئی بات ہو اب نئے گیت چھیڑو
گزرتی گھڑی ہر پرانی کہے ہے
غزل
ہوا جب کسی کی کہانی کہے ہے
گوتم راج رشی