ہوائے زندگی بھی کوچۂ قاتل سے آتی ہے
سمجھ اس بات کی لیکن ذرا مشکل سے آتی ہے
یوں ہی ہوتی نہیں ہے وسعت فکر و نظر پیدا
بصارت میں بصیرت در حقیقت دل سے آتی ہے
کمال عشق کا یوں بھی کبھی انداز ہوتا ہے
سوئے پروانہ شمع چل کے خود محفل سے آتی ہے
خیالوں میں غم سود و زیاں کچھ بھی نہیں رہتا
محبت کی یہ خوبی سعئ لا حاصل سے آتی ہے
وہ عالم کون سا عالم ہے جو پنہاں نہیں مجھ میں
جو گوش فکر وا ہو یہ صدا بھی دل سے آتی ہے
کوئی طوفان بس آنے ہی والا ہے سمندر میں
کہ بو اس بات کی خاموشیٔ ساحل سے آتی ہے
نگاہیں قیس کی یوں ہی نہیں ہیں محو نظارہ
ضیا لیلیٰ کی ہے جو پردۂ محمل سے آتی ہے
نہیں آتی ہے جب یہ تو کسی پر بھی نہیں آتی
مگر آتی ہے جب اپنی طبیعت دل سے آتی ہے
نہیں رہتا تفاوت جب وصال و ہجر میں کچھ بھی
یہ منزل انتظار شوق میں مشکل سے آتی ہے
لہو کی چھینٹ تک قاتل کے دامن پر نہیں کوئی
تڑپنے کی ادا ایسی بڑی مشکل سے آتی ہے
غزل
ہوائے زندگی بھی کوچۂ قاتل سے آتی ہے
روہت سونی تابشؔ