EN हिंदी
ہوائے تند کے آگے دھواں ٹھہرتا نہیں | شیح شیری
hawa-e-tund ke aage dhuan Thaharta nahin

غزل

ہوائے تند کے آگے دھواں ٹھہرتا نہیں

نامی انصاری

;

ہوائے تند کے آگے دھواں ٹھہرتا نہیں
ہمارے سر پہ کبھی آسماں ٹھہرتا نہیں

حساب درد کروں بھی تو اس سے کیا حاصل
نگاہ شوق میں حرف زیاں ٹھہرتا نہیں

نہ راستے کا انہیں علم ہے نہ منزل کا
ہزار گرد اڑے کارواں ٹھہرتا نہیں

جہاں پہ سکۂ زر کی کھنک سنائی نہ دے
فقیہ شہر گھڑی بھر وہاں ٹھہرتا نہیں

قریب و دور یہ افواہ کیسی پھیل گئی
کسی کے گھر میں کوئی میہماں ٹھہرتا نہیں

ہوائے سجدہ نے ہر آستاں کو دیکھ لیا
جبین شوق پہ کوئی نشاں ٹھہرتا نہیں

ہم اپنے آپ کی پہچان کیا کریں نامیؔ
یقیں پنپتا نہیں ہے گماں ٹھہرتا نہیں