EN हिंदी
ہوائے شب بھی ہے عنبر افشاں عروج بھی ہے مہ مبیں کا | شیح شیری
hawa-e-shab bhi hai ambar-afshan uruj bhi hai mah-e-mubin ka

غزل

ہوائے شب بھی ہے عنبر افشاں عروج بھی ہے مہ مبیں کا

اکبر الہ آبادی

;

ہوائے شب بھی ہے عنبر افشاں عروج بھی ہے مہ مبیں کا
نثار ہونے کی دو اجازت محل نہیں ہے نہیں نہیں کا

اگر ہو ذوق سجود پیدا ستارہ ہو اوج پر جبیں کا
نشان سجدہ زمین پر ہو تو فخر ہے وہ رخ زمیں کا

صبا بھی اس گل کے پاس آئی تو میرے دل کو ہوا یہ کھٹکا
کوئی شگوفہ نہ یہ کھلائے پیام لائی نہ ہو کہیں کا

نہ مہر و مہ پر مری نظر ہے نہ لالہ و گل کی کچھ خبر ہے
فروغ دل کے لیے ہے کافی تصور اس روئے آتشیں کا

نہ علم فطرت میں تم ہو ماہر نہ ذوق طاعت ہے تم سے ظاہر
یہ بے اصولی بہت بری ہے تمہیں نہ رکھے گی یہ کہیں کا