ہوائے ہجر چلی دل کی ریگزاروں میں
شرار جلتے ہیں پلکوں کی شاخساروں میں
کوئی تو موجۂ طوفاں ادھر بھی آ نکلے
سفینے ڈوب چلے بحر کے کناروں میں
انہیں کی حسرت رفتہ کی یادگار ہوں میں
جو لوگ رہ گئے تنہا بھری بہاروں میں
ہمیں وہ سوکھے ہوئے زرد پیڑ ہیں جو کبھی
بہار بانٹتے پھرتے تھے گلعذاروں میں
ظہیرؔ وہ بھی سمجھتے ہیں اب زبان غزل
چھپاؤ لاکھ غم ہجر استعاروں میں
غزل
ہوائے ہجر چلی دل کی ریگزاروں میں
ظہیر کاشمیری